کون کہتا میرے دیس میں کاروبار مندے پڑ گئے ہیں؟۔
میں یہاں گردہ بیچ سکتا ہوں گردہ خرید سکتا ہوں۔
عورت کی عزت کیا چیز ہے
پوری عورت بیچ سکتا ہوں عورت خرید سکتا ہون،
میں ووٹ بیچ سکتا ہوں ووٹ خرید سکتا ہوں،
میں بچے بیچ سکتا ہوں بچے خرید سکتا ہوں،
میں فتویٰ بیچ سکتا ہوں فتویٰ خرید سکتا ہوں۔
انصاف خرید سکتا ہوں انصاف بیچ سکتا ہوں،
یہاں جج بکتے ہیں، وکیل بکتے ہیں، یہاں علم بکتا ہے یہاں دین بکتا ہے۔،
یہاں تلاوت کے دام ملتے ہیں
یہاں نعتیں بیچی جاتی ہے۔
یہاں شاعر کے ایک ایک لفظ کا بھاؤ لگتا ہے
یہاں ادیب کے ھر پیرے فقرے کی الگ الگ قیمت لگتی ہے۔
یہاں خون بکتا ہے یہاں سکون بکتا ہے۔
یہاں جھوٹ بولنے کی قیمت وصول کی جاتی ہے
یہاں سچ بھی اچھی قیمت پر نیلام ہوجاتا ہے۔
یہاں باپ بیٹے سے اس کی پرورش کی قیمت لیتا ہے
یہاں بیٹا باپ سے اپنی خدمتوں کے روپے کھرے کرتا ہے،
یہاں شرافت بھی آپ خرید سکتے ہیں
یہاں رسوائی بدنامی کی بھی منہ مانگی رقم مانگی جاتی ہے۔
یہاں ھر کاروباری جلدی میں ہے کہ اسے خریدنے کے فورا"بعد کچھ بیچنا ہوتا ہے۔
میں بھی خریدار تو بھی خریدار، میں بھی دکاندار تو بھی دکاندار، کاروبار کا ایسا جمعہ بازار جس کا ہفتہ اتوار کبھی نہیں آتا۔
یہاں عبادتوں کا بھی پروردگار سے سودا طے کر لیا جاتا ہے۔
اتنا دے گا تو اتنے نفل پڑھوں گا۔ اتنا منافع ہوا تو اتنے روزے رکھوں گا۔ مسجد میں سودے مندر میں سودے چرچ میں سودے درباروں پر سودے، ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
چلو آؤ آج ایک نیا سودا کرکے دیکھیں۔
چلو پسینہ دے کر آنسو خریدیں۔
چلو پھول سے خوشبو خرید کر بلبل کے نغمے کے عوض اسے بیچ دیں۔ چلو نیند بیچ کر خواب خریدیں۔
چلو عبادت دے کر اس سے محبت لے لیں۔
چلو دھوپ بارش چاندنی ہوا اس سے شکر کے بدلے حاصل کریں۔
چلو ظالم سے ظلم خرید کر اسے انسانیت دے دیں۔
چلو کسی سے درد لے کر اسے خوشی دے دیں۔
چلو بے وفائی خرید کر وفا دے دیں۔
آؤ آؤ میرے ساتھ آؤ وقت کم ہے یہ نہ ہو دکانیں جل کر خاکستر ہو جائیں یہ نہ ہو زمین قدموں کے نیچے سے اپنا دامن سمیٹ لے.
عمرانیات
اتوار، 28 جون، 2015
میں بیچ سکتا ہوں،خرید سکتا ہوں..! کیا؟؟؟
اتوار، 10 مئی، 2015
اسلام اور اسلامی درسگاہوں کا تقدس کیوں ضروری ہے
اسلام.
اللہ وحدہ لاشریک پر ایمان لانے اور اُسکے برگزیدہ پیغمبر حضرت مُحمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے اُنکی تعلیمات پر عمل کرنے والے پاکیزہ مذہب کا نام ہے.نبی علیہ السلام کی صُحبت میں تعلیم حاصل کرنے والے لاکھوں فرزندانِ توحید طالبِ علم تھے اور خُود پیغمبرِ خُدا ایک برگُزیدہ اُستادِ محترم تھے اور قیامت تک رہینگے.خانہ کعبہ،مسجدِ نبوی اور غارِحرا، غارِ ثور اور حجرہ مُبارک میں مجالس قائم ہوتی رہیں اور دینِ اسلام کے رموز و اوقاف سیکھنے سکھانے کا سلسلہ جاری رہا اور آج تک قائم ہے اور قیامت تک جاری رہے گی.یہ تمام مقام بھی مدارس کہلاتے ہیں جہاں عظیم ہستیاں اسلامی تعلیمات کے زیور سے آراستہ ہوتے رہے.
نبی علیہ السلام کا قول مبارک ہے کہ
"جو بڑوں کی عزت نہیں کرتا، چھوٹوں پر شفقت نہیں کرتا اور علماءاکرام کی عزت نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں"
علماءاکرام کی جائے نشست مدارس ہیں جو کہ جائے مقدس کہلاتی ہیں اور اس کے برعکس مدارس کو کن کن بُرے الفاظ سے پُکارا جاتا ہے جو کہ قابل افسوس اور قابل مذمت ہے.لہذا احتیاط برتی جائے مدارس سے وابستہ اور مدارس کی عزت وتوقیر کرنے والوں کی دل آزاری سے گُریز کیا جائے.
والسلام.
جمعہ، 1 مئی، 2015
مزدور کی زندگی کا"شُمار"
جب آپ کسی مزدور کی زندگی کا احاطہ کریں تو آپ کو محرومیوں،مجبوریوں،تنگ دستیوں کے برعکس خُواہشات کا ایک انبار نظر آئے گا.حسرت ویاس کی تصویریں مزدور اور اسکی فیملی اسکے بچوں کے چہروں پر مزین رہتی ہیں جنہیں ہم صرف ایک نگاہ دیکھتے ہیں اور پھر بے حسی،بےپرواہی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مُنہ گھوما لیتے ہیں یا اگر سوچتے بھی ہیں تو پل بھر کیلیے اسکے بعد اپنی دُنیا اپنے مشاغل اور اپنی سرگرمیوں میں مصروف ہوجاتے ہیں.بعض لوگ تو حقارت اور نفرت سے دھتکار دیتے ہیں.مزدور سے دورانِ مزدوری اگر کُچھ غلطی ہوجائے تو اُسے طعنہ دیا جاتا ہے کہ تُم اگر ایسا نا کرتے تو آج مزدور کے مزدور نا ہوتے بلکہ کچھ بن چُکے ہوتے لیکن یہ زرا بھی نہیں اُس سوچتے کہ ہمارے الفاظ اُسکیلیے اور کتنی محرومیوں اور مجبوریوں کے دروازے اُسکی ذات پر کھولیں گے.
ہم اپنے پاس موجود نعمتوں کو اپنی عقل سے حاصل کی ہوئی چیزیں سمجھتے ہیں اور ایک مزدور کو اُسکی غربت کیوجہ سے اُسکی کم عقلی تصور کرتے ہیں کہ اس میں عقل ہی نہیں کہ یہ ہمیشہ مزدور ہی رہا حالانکہ یہ تقدیر کے فیصلے ہیں اور نصیب کی باتیں ہیں.
ایک مزدور اور وہ کون تھا؟
حضرت سیدنا عبداللہ بن الفرج العابد علیہ رحمۃاللہ الماجد فرماتے ہیں :'' ایک مرتبہ مجھے کسی تعمیر ی کام کے لئے مزدور کی ضرورت پڑی، میں بازار آیا اور کسی ایسے مزدور کو تلاش کرنے لگا جو میری خواہش کے مطابق ہو، یکایک میری نظر ایک نوجوان پر پڑی جو سب سے آخر میں بیٹھا ہو ا تھا۔ چہرہ شرافت وعبادت کے نور سے چمک رہا تھا ، اس کا جسم بہت ہی کمزور تھا ، اس کے سامنے ایک زنبیل اور رسی پڑی ہوئی تھی،اس نے اُون کاجبہ پہنا ہوا تھا اور ایک موٹی چادر کا تہبند باندھا ہوا تھا ۔
میں اس کے پا س آیا او رپوچھا:'' اے نوجوان! کیا تم مزدو ری کرو گے ؟'' کہنے لگا:'' جی ہاں۔'' میں نے پوچھا : '' کتنی اُجرت لوگے ؟ ''اس نے جوا ب دیا:''ایک درہم اور ایک دانق (یعنی درہم کاچھٹا حصہ) لوں گا۔'' میں نے کہا: ''ٹھیک ہے ، میرے ساتھ چلو۔'' وہ نوجوان کہنے لگا:''جیسے ہی مُؤذِّن ظہر کی اذان دے گا میں کام چھوڑ کر نماز کی تیاری کرو ں گا اور نماز کے بعد دوبارہ کام شروع کردوں گا، پھر جب عصر کی اذان ہوگی تو میں فوراًکام چھوڑ کر نماز کی تیاری کروں گا اور نماز کے بعد کام کروں گا،اگر تمہیں یہ شرط منظور ہے تو میں تمہارے ساتھ چلتا ہو ں ورنہ کوئی اور مزدور ڈھونڈ لو۔'' میں نے کہا:'' مجھے تمہاری یہ شرط منظور ہے ۔ میں اسے لے کر اپنے گھر آیا او ر کام کی تفصیل بتا دی ، اس نے کام کے لئے کمر باندھی اور اپنے کام میں مشغول ہوگیا ۔اورمجھ سے کوئی بات نہ کی۔ جب مؤذن نے ظہر کی اذان دی تو اس نے مجھ سے کہا:''اے عبداللہ! مؤذن نے اذان دے دی ہے۔'' میں نے کہا:''آپ جایئے اور نماز کی تیاری کیجئے ۔'' نماز سے فراغت کے بعد وہ عظیم نوجوان دوبارہ اپنے کام میں مشغول ہوگیا اور بڑی دیا نتداری سے احسن انداز میں کام کرنے لگا۔ عصر کی اذان ہوتے ہی اس نے مجھ سے کہا:''اے عبداللہ! مؤذن اذان دے چکا۔'' میں نے کہا :''جائیے اور نماز پڑھ لیجئے۔'' نماز کے بعد وہ دوبارہ کام میں مشغول ہوگیا اور غروبِ آفتاب تک کام کرتا رہاپھر میں نے اسے طے شدہ اُجرت دی اور وہ وہاں سے رخصت ہوگیا ۔
کچھ دنوں کے بعد مجھے دوبارہ مزدور کی ضرورت پڑی تو مجھ سے میری زوجہ نے کہا:''اسی نوجوان کو لے کر آناکیونکہ اس کے عمل سے ہمیں بہت نصیحت حاصل ہوئی ہے او روہ بہت دیا نتدار ہے، چنانچہ میں بازار گیا تو مجھے وہ نوجوان کہیں نظر نہ آیا۔ میں نے لوگو ں سے اس کے متعلق پوچھا تو وہ کہنے لگے:'' کیا آپ اسی کمزورو نحیف نوجوان کے بارے میں پوچھ رہے ہیں جو سب سے آخر میں بیٹھتا ہے ؟'' میں نے کہا:''جی ہا ں، میں اسی کے متعلق پوچھ رہا ہوں ۔''تو انہوں نے کہا:'' وہ تو صرف ہفتہ کے دن آتا ہے، اس کے علاوہ کسی دن کام نہیں کرتا۔'' یہ سن کرمیں واپس آگیا اور ہفتے کا انتظار کرنے لگا پھر بروز ہفتہ میں دو بارہ بازار گیا تو میں نے اس پُرکشش وعظیم نوجوان کو اسی جگہ موجود پایا۔ میں اس کے پاس گیا اور اس سے پوچھا:'' کیا تم مزدوری کرو گے؟''
اس نے کہا :''جی ہاں، لیکن میری وہی شرائط ہوں گی جو میں نے پہلے بتائی تھیں ۔''میں نے کہا: ''مجھے منظور ہے، تم میرے ساتھ چلو۔'' وہ میرے ساتھ میرے گھر آیا او رمیں نے اسے کام کی تفصیل بتادی وہ بڑی دیانتداری سے پہلے کی طر ح کام کرتارہا اور اس نے کئی مزدوروں جتنا کام کیا، شام کو میں نے اسے طے شدہ اُجرت سے زیادہ رقم دینا چاہی تو اس نے زائد رقم لینے سے انکار کردیا۔ میں نے بہت اصرار کیا مگر وہ نہ مانا اور اجرت لئے بغیر ہی وہاں سے جانے لگا مجھے اس بات سے بڑا رنج ہوا کہ وہ بغیر اجرت لئے ہی جا رہا ہے۔ میں نے اس کا پیچھا کیا اور بصد عاجزی اسے اُجرت دی۔ اس نے زائد رقم واپس کر دی اورطے شدہ مزدوری لے کر وہاں سے روانہ ہوگیا ۔ کچھ دنوں کے بعد جب دوبارہ ہمیں مزدور کی ضرورت پڑی تومیں ہفتہ کے دن بازار گیا اور اسی نوجوان کو تلاش کرنے لگا لیکن وہ مجھے کہیں نظر نہ آیا میں نے اس کے متعلق پوچھا تو لوگو ں نے بتایا کہ وہ ہفتے میں صرف ایک دن کام کرتا ہے اور مزدوری میں ایک درہم اور ایک دانق (یعنی درہم کا چھٹا حصہ) اُجر ت لیتاہے، وہ روزانہ ایک دانق اپنے استعمال میں لاتا ہے ۔آج وہ بیمارتھااس لئے نہیں آیا ۔میں نے پوچھا :'' وہ کہا ں رہتا ہے؟'' لوگو ں نے بتا یا:'' فلاں مکان میں رہتا ہے۔'' میں وہاں پہنچا تو وہ ایک بڑھیا کے مکان میں موجود تھا۔ بڑھیا نے بتا یا کہ یہ کئی دنوں سے بیمار ہے۔ میں اس کے پاس پہنچا تو دیکھا کہ وہ سخت بیماری میں مبتلاہے اور اینٹوں کا تکیہ بنایا ہوا ہے ، میں نے اسے سلام کیا او ر پوچھا:'' اے میرے بھائی! کیا تمہاری کوئی حاجت ہے ؟'' کہنے لگا:''جی ہا ں، مجھے تم سے ایک ضروری کام ہے، کیا تم اسے پورا کر و گے ؟ میں نے کہا: ''ان شاء اللہ عزوجل میں تمہارا کام ضرور پورا کروں گا، بتاؤ! کیا کام ہے ؟''
اس نوجوان نے کہا:''جب میں مرجاؤں تو یہ لوٹا اور زنبیل بیچ کر گور کن کو اُجرت دے دینا اور کفن کے لئے مجھے میرا یہی اُون کا جبہ اور چادر کا فی ہے، مجھے اسی لباس میں سپرد خاک کردینا اور میری جیب میں ایک انگوٹھی ہے اسے اپنے پاس رکھنا اور میری تدفین کے بعد اسے امیر المؤمنین ہارو ن الرشید علیہ رحمۃاللہ المجید کے پاس لے جانا، جب ان کی شاہی سوا ری فلاں دن فلاں مقام سے گزرے توانہیں کہنا: ''میرے پاس آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کی ایک امانت ہے پھر انہیں یہ انگوٹھی دکھا دینا،وہ خود ہی تمہیں اپنے پاس بلا لیں گے اوراس بات کا خیال رکھنا کہ یہ کام میری تدفین کے بعد ہی کرنا۔'' میں نے کہا:'' ٹھیک ہے،میں تمہاری وصیت پر عمل کرو ں گا ۔''
پھر اس عظیم نوجوان کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔ مجھے اس کی موت کا بہت دکھ ہوا ،بہر حال میں نے اس کی وصیت کے مطابق اس کی تجہیز وتکفین کی اور پھر انتظار کرنے لگا کہ خلیفہ ہارو ن الرشید علیہ رحمۃاللہ المجیدکی سواری کس دن نکلتی ہے۔ جب وہ دن آیا تو میں راستے میں بیٹھ گیا ،امیر المؤمنین رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ جاہ وجلال کے عالم میں ہزارو ں شہسواروں کے ساتھ بڑی شان وشوکت سے چلے آرہے تھے۔جب ان کی سواری میرے قریب سے گزری تو میں نے بلند آواز سے کہا:''اے امیر
المؤمنین (رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ) !میرے پاس آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کی ایک امانت ہے۔'' پھر میں نے وہ انگوٹھی دکھائی، انہوں نے انگوٹھی دیکھ کر حکم دیا کہ اسے ہمارے مہمان خانے میں لے جاؤ میں اس سے علیٰحد گی میں گفتگو کرو ں گا۔
چنانچہ مجھے محل میں پہنچا دیا گیا،جب خلیفہ ہارو ن الرشید علیہ رحمۃاللہ المجید کی واپسی ہوئی تو انہوں نے مجھے اپنے پاس بلایا اور باقی تمام لوگو ں کو باہر جانے کا حکم دیا، پھر مجھ سے پوچھا:'' تم کون ہو؟'' میں نے کہا:'' میرا نام عبداللہ بن فرج ہے۔'' انہوں نے پوچھا: '' تمہارے پاس یہ انگوٹھی کہاں سے آئی؟''میں نے اس عظیم نوجوان کا سارا واقعہ خلیفہ ہارو ن الرشید علیہ رحمۃاللہ المجید کو سنادیا ۔''
یہ سن کر وہ اس قدر روئے کہ مجھے ان پر ترس آنے لگا ۔ پھر جب وہ میری طر ف متوجہ ہوئے تومیں نے ان سے پوچھا : ''اے امیر المؤمنین رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ !اس نوجوان سے آپ کا کیا رشتہ تھا ؟''آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا :'' وہ میرا بیٹا تھا ۔'' میں نے پوچھا:'' اس کی یہ حالت کیسے ہوئی؟''آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:''وہ مجھے خلافت ملنے سے پہلے پیدا ہوا تھا۔'' ہم نے اس کی خوب نیک ماحول میں پرورش کی او راس نے قرآن کا علم سیکھا پھرجب مجھے خلافت کی ذمہ داری سونپی گئی تو اس نے مجھے چھوڑ دیا، اور میری دنیاوی دولت سے کوئی فائدہ حاصل نہ کیا، یہ اپنی ماں کا بہت فرمانبردار تھا، میں نے اِس کی ماں کو ایک انگوٹھی دی جس میں بہت ہی قیمتی یا قوت تھا اور اس سے کہا:'' یہ میرے بیٹے کو دے دو تا کہ بوقتِ ضروت اسے بیچ کر اپنی حاجت پوری کر سکے۔'' اس کے بعد وہ ہمیں چھوڑ کر چلا گیا اور ہمیں اس کے متعلق بالکل معلومات نہ مل سکیں،آج تم نے اس کے متعلق بتایاہے پھرآپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ رونے لگے اورکہا:''آج رات مجھے اس کی قبر پر لے چلنا ۔''
جب رات ہوئی اور ہم دونوں اس کی قبر پر پہنچے تو خلیفہ ہارو ن الرشیدعلیہ رحمۃ اللہ المجید اس کی قبر کے پاس بیٹھ گئے اور زاروقطار رونا شروع کر دیا اور ساری رات روتے روتے گزاردی جب صبح ہوئی تو ہم وہاں سے واپس آگئے۔ آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ مجھ سے فرمانے لگے:'' تم روزانہ رات کے وقت میرے پاس آیا کرو،ہم دونوں اس کی قبر پر آیا کریں گے۔''چنانچہ میں ہر رات ان کے پاس جاتا، وہ میرے ساتھ قبر پر آتے اور رونا شروع کردیتے پھر واپس چلے جاتے ۔حضرت سیدنا عبداللہ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں :'' مجھے معلوم نہیں تھا کہ وہ نوجوان خلیفۃ المسلمین ہارون الرشید علیہ رحمۃاللہ المجید کا شہزاد ہ تھا۔'' مجھے تو اس وقت معلوم ہوا جب خودامیر المؤمنین رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے بتایا کہ وہ میرا بیٹاتھا۔''
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)
یکم مئی!یومِ مزدور
ﯾﮑﻢ ﻣﺌﯽ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﮐﮯ ﺁﺋﯿﻨﮯ ﻣﯿﮟ
ﺣﻀﺮﺕِ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﯽ ﯾﮧ ﻓﻄﺮﺕ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺟﺐ ﺑﮭﯽ ﻭﮦ ﮐﭽﮫ ﺍﭼﮭﺎﺋﯽ ﯾﺎ ﺑﮩﺘﺮﯼ ﮐﺎ ﺳﻮﭼﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﯾﺴﯽ ﺑﺎﺕ ﯾﺎ ﺭﮐﺎﻭﭦ ﺿﺮﻭﺭ ﺁﮌﮮ ﺁﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺍُﺳﮯ ﺍُﺱ ﻧﯿﮑﯽ ﯾﺎ ﺑﮩﺘﺮﯼ ﺳﮯ ﺭﻭﮐﺘﯽ ﮨﮯ۔
ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﺴﺎ ﻋﻤﻞ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺟﻮ ﮐﺴﯽ ﺧﺎﺹ ﻭﻗﺖ ﯾﺎ ﻣﻮﻗﻌﮯ ﮐﺎ ﻣﺤﺘﺎﺝ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ۔ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﯽ ﭘﻮﺭﯼ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﮯ ﻟﻤﺤﮯ ﺑﺎﺭ ﺑﺎﺭ ﺁﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﺐ ﻭﮦ ﮐﭽﮫ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﺎ ﺗﮭﺎ, ﻟﯿﮑﻦ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮ ﭘﺎﯾﺎ۔ ﺍﭼﮭﺎ ﺑﻦ ﺳﮑﺘﺎ ﺗﮭﺎ, ﻟﯿﮑﻦ ﮨﻤﺖ ﮨﺎﺭ ﮔﯿﺎ۔ ﺍﭘﻨﯽ ﺗﻘﺪﯾﺮ ﺳﻨﻮﺍﺭ ﺳﮑﺘﺎ ﺗﮭﺎ, ﻟﯿﮑﻦ ﺳﻮﭼﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﻭﻗﺖ ﺑﺮﺑﺎﺩ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ۔
ﻟﯿﮑﻦ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﮐﯽ ﮐﺘﺎﺏ ﭘﺮ ﺁﭖ ﮐﻮ ﭼﻨﺪ ﺍﯾﺴﮯ ﺍﻭﺭﺍﻕ ﺑﮭﯽ ﻣﻠﯿﮟ ﮔﮯ ﺟﻮ ﺍُﻥ ﺑﮩﺎﺩﺭ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﮨﻤﺖ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﯽ ﺩﺍﺳﺘﺎﻧﻮﮞ ﺳﮯ ﺭﻗﻢ ﮨﯿﮟ ﺟﻨﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﺝ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﮩﺘﺮ ﮐﻞ ﮐﯽ ﺍُﻣﯿﺪ ﭘﺮ ﻗﺮﺑﺎﻥ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ, ﺟﻨﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﻭﻗﺘﯽ ﺳﺨﺘﯿﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﻗﺮﺑﺎﻧﯿﻮﮞ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺁﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﻧﺴﻠﻮﮞ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺭﺍﮨﯿﮟ ﮨﻤﻮﺍﺭ ﮐﯽ, ﺍﯾﺴﮯ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﮐﺒﮭﯽ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﻣﯿﮟ ﻓﺮﺍﻣﻮﺵ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﺟﺎ ﺳﮑﺘﺎ۔۔!!
ﯾﮧ ﻭﺍقعہ ﮨﮯ 1884ﺀ ﮐﺎ ﺟﺐ ﺍﻣﺮیکہ ﺍﻭﺭ ﯾﻮﺭﭖ ﮐﮯ ﻣﺰﺩﻭﺭﮞ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺣﮑﻮﻣﺘﻮﮞ ﮐﻮ ﮐﭽﮫ ﻣﻄﺎﻟﺒﺎﺕ ﺩﺋﯿﮯ ﺟﻦ ﻣﯿﮟ ﺳﺮِﻓﮩﺮﺳﺖ ﯾﮧ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ "ﮨﻢ 16 ﮔﮭﻨﭩﻮﮞ ﮐﯽ ﺑﺠﺎﺋﮯ 8 ﮔﮭﻨﭩﮯ ﮐﺎﻡ ﮐﺮﯾﮟ ﮔﮯ۔۔۔"
! یہ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﺴﺎ ﻋَﻠﻢِ ﺑﻐﺎﻭﺕ ﺗﮭﺎ ﺟﺴﮯ ﺑﻠﻨﺪ ﮐﺮﻧﺎ ﺍﺗﻨﺎ ﺁﺳﺎﻥ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ۔ ﺑﯿﭽﺎﺭﮮ ﻣﺰﺩﻭﺭ ﺳﻮﻟﮧ ﺳﻮﻟﮧ ﮔﮭﻨﭩﮯ ﮐﺎﻡ ﺑﮭﯽ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ, ﺍﻭﺭ ﻣﻌﺎﻭﺿﮧ ﺑﮭﯽ ﺍُﻥ ﮐﯽ ﺗﻮﻗﻊ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻞ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔
ﺁﺧﺮ ﺍﯾﮏ ﺩِﻥ ﭼﻨﺪ ﻣﺰﺩﻭﺭﻭﮞ ﻧﮯ ﺍِﺱ ﻇﻠﻢ ﮐﮯ ﺧﻼﻑ ﺁﻭﺍﺯ ﺍُﭨﮭﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﭨﮭﺎﻥ ﻟﯽ۔ ﭘﮩﻠﮯ ﭘﮩﻞ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﻧﮩﯿﮟ "ﭘﺎﮔﻞ", "ﺑﯿﻮﻗﻮﻑ" ﺍﻭﺭ "ﻧﺎﺩﺍﻥ" ﮐﮩﺎ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﮨﻤﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﺎﺭﯼ۔
ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺩﻧﯿﺎ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ کہ ﺍُﺱ ﻣﺰﺩﻭﺭ ﺗﺤﺮﯾﮏ ﻧﮯ ﺍﺗﻨﺎ ﺯﻭﺭ ﭘﮑﮍ ﻟﯿﺎ ﮐﮧ ﺍﭘﺮﯾﻞ 1886ﺀ ﮐﻮ ﺍﻣﺮیکہ ﮐﮯ ﺷﮩﺮ "ﺷﮑﺎﮔﻮ" ﻣﯿﮟ 2 ﻻﮐﮫ 50 ﮨﺰﺍﺭ ﺳﮯ ﺯﺍﺋﺪ ﻣﺰﺩﻭﺭﮞ ﻧﮯ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﮐﮯ ﺧﻼﻑ ﺟﻠﻮﺱ ﻧﮑﺎﻻ۔ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﻃﺮﻑ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﺍﻭﺭ ﺳﺮﻣﺎیہ ﮐﺎﺭ ﺗﻨﻈﯿﻤﻮﮞ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﺳﮯ ﺍُﻥ ﻧﮩﺘﮯ ﻣﺰﺩﻭﺭﮞ ﭘﺮ ﻃﺎﻗﺖ ﮐﺎ ﺍﻧﺪﮬﺎ ﺩﮬﻨﺪ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﺟﺲ ﮐﮯ ﻧﺘﯿﺠﮯ ﻣﯿﮟ ﺩﺭﺟﻨﻮﮞ ﻣﺰﺩﻭﺭ ﺍﻭﺭ ﭘﻮﻟﯿﺲ ﻭﺍﻟﮯ ﮨﻼﮎ ﺍﻭﺭ ﺯﺧﻤﯽ ﮨﻮﺋﮯ۔
ﯾﮧ قصہ ﺗﻮ ﺑﮩﺖ ﻃﻮﯾﻞ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﺨﺘﺼﺮﺍً ﺻﺮﻑ ﺍﺗﻨﺎ ﮨﯽ ﮐﮩﻮﻧﮕﺎ ﮐﮧ ﺍﮔﺮچہ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﺍُﺱ ﻣﺰﺩﻭﺭ ﺗﺤﺮﯾﮏ ﮐﮯ ﻟﯿﮉﺭﺯ "ﺍﻟﺒﺮﭦ ﭘﺎﺭﺳﻦ", "ﺁﮔﺴﭧ ﺳﭙﺎﺋﺰ", "ﺍﯾﮉﻭﻟﻒ ﻓﺸﺮ" ﺍﻭﺭ "ﺟﺎﺭﺝ ﺍﯾﻨﺠﻞ" ﮐﻮ ﺑﻐﺎﻭﺕ ﮐﮯ ﺟﺮﻡ ﻣﯿﮟ 11 ﻧﻮﻣﺒﺮ 1887ﺀ ﮐﻮ ﭘﮭﺎﻧﺴﯿﺎﮞ ﺩﮮ ﺩﯼ ﮔﺌﯽ۔
ﻟﯿﮑﻦ ﺗﺐ ﺗﮏ ﮐﻤﺰﻭﺭ ﺳﮯ ﮐﻤﺰﻭﺭ ﻣﺰﺩﻭﺭ ﺑﮭﯽ ﺍُﺱ ﻇﻠﻢ ﮐﮯ ﺧﻼﻑ ﺍﺗﻨﮯ ﭘُﺮﻋﺰﻡ ﺍﻭﺭ ﺟﻮﺍﮞ ﮨﻤﺖ ﮨﻮ ﭼﮑﮯ ﺗﮭﮯ کہ ﺣﮑﻮﻣﺖِ ﻭﻗﺖ ﮐﻮ ﮨﯽ ﺍُﻥ ﮐﮯ ﺁﮔﮯ ﮔﮭﭩﻨﮯ ﭨﯿﮑﻨﮯ ﭘﮍﮮ ﺍﻭﺭ ﯾﮑﻢ ﻣﺌﯽ 1890ﺀ ﮐﻮ ﻣﺰﺩﻭﺭﮞ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﻟﺒﺎﺕ ﺗﺴﻠﯿﻢ ﮐﺮ ﻟﯿﮯ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﺗﺐ ﺳﮯ ﻧﻮﮐﺮﯼ ﮐﯽ ﭨﺎﺋﻤﻨﮓ 8 ﮔﮭﻨﭩﮯ ﺩﻭﺭﺍﻧﯿﮯ ﭘﺮ ﻣﺤﯿﻂ ﮐﺮ ﺩﯼ ﮔﺌﯽ۔ ﺍِﺱ ﻟﯿﮯ ﺁﺝ ﯾﻌﻨﯽ ﯾﮑﻢ ﻣﺌﯽ ﮐﻮ "ﻣﺰﺩﻭﺭ ﮈﮮ" ﻣﻨﺎﯾﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔۔!!
ﻋﻼﻣﮧ ﺍﻗﺒﺎﻝؒ ﻧﮯ ﮐﯿﺎ ﺧﻮﺏ ﮐﮩﺎ ﮨﮯ کہ۔!!!
ﻣﺤﺒﺖ ﻣﺠﮭﮯ ﺍُﻥ ﺟﻮﺍﻧﻮﮞ ﺳﮯ ﮨﮯ۔ ﺳﺘﺎﺭﻭﮞ ﭘﮧ ﺟﻮ ﮈﺍﻟﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﻤﻨﺪ